۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 362339
29 اگست 2020 - 15:59
مولانا محمد عباس مسعود 

حوزه/ اسلام دشمن یا  خود غرض سیاستمدار اور دولت کے نشہ میں دھت صاحب ثروت اور مذہبی  تعلیمی اور ثقافتی اداروں  کے سربراہ سبھی ایسے  علماء کو اپنا آلہ کار بناتے ہیں۔

تحریر : مولانا محمد عباس مسعود 

حوزہ نیوز ایجنسی | تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں علمائے دین کا مقام و مرتبہ اور ان کا سماجی وقار بلند رہا ہے ۔ وہ ہمیشہ لوگوں کے درمیان محترم  اور مقدس جانے جاتے رہے۔علماء دین کا یہ روحانی مقام اور سماجی نفوذ صرف شیعہ اور مسلمان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر سماج میں علماء دین  محترم ہیں۔چاہے وہ مندر کا پجاری ہو یا کلیسا کا پادری۔ علماء کی اتنی مخالفت کے باوجود آج بھی علماء کا وقار  ویسا ہی  برقرارہے بعض اوقات اس صنف میں ایسے بے عمل اور بدکردار افراد  آجاتے ہیں جس سےپوری صنف پر اگلی اٹھتی ہے اس کے باوجود لوگ علماء سے اپنا رشتہ نہیں توڑتے ۔ کیوں ؟
بات در اصل یہ ہے کہ لوگ اپنی پاکیزہ فطرت کی وجہ سے اللہ ، قیامت،اور انبیاء و  ائمہ کی الہی و آسمانی تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں اور علمائے دین کو ان الہی تعلیمات کا محافظ، امین  اور مفسر مانتے ہیں اور اسی لئے ان کی عزت کرتے ہیں اور تاریخ  بھی گواہ ہے کہ ہر  دور میں علماء کے گھر اور مسجدیں ہی تھیں جو سماج میں اصلاح ، خرافات سے نجات، قوم کی فلاح و بہبود بلکہ بڑے بڑے تاریخی  انقلابات  کا پیش خیمہ بنیں  جس طرح انبیاء اپنی قوم کی دنیوی ترقی اور اخروی نجات کا باعث تھے اور اب  بھی ہیں  ویسے ہی علماء  قوم و ملت کی ترقی اور تنزلی کے ذمہ دار  سمجھے جاتے ہیں۔احادیث رسول میں  علماء کو اللہ ، رسول اور عوام کا امین بتایا گیا ہے جہاں یہ احادیث عالم کے مقام و  مرتبہ کو اجاگر کرتی ہیں وہیں عالم  دین کی سنگین ذمہ داریوں کی جانب اشارہ بھی کرتی ہیں۔
یوں تو تمام علوم  انسان کیلئے اللہ کی نعمت اور اس کا لطف وکرم ہے  ۔ انسان  مختلف علوم میں تجربہ اور کشف سے آج  ترقی کے کس مرحلہ پر پہنچ گیا ہے کتنے رازہای سربستہ منکشف ہوگئے ہیں لیکن اس کے باوجود علم دین کی خصوصیت یہ ہے یہ علم تجربہ و کشف کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کا عطا کردہ وہ علم ہے جو نبی کے ذریعہ علماء کو امانت دیا گیا ہے ۔حدیث میں ہے کہ علم دین پر عمل کرنا امانت داری ہے  اور جو بے عمل ہے اس کا نام خائنوں میں لکھا جائے گا۔یہ علماء ہی ہیں جو دین کی صحیح تفسیر و تبیین اور اس پر عمل کے ذریعہ زمین کو ملکوت میں تبدیل کردیتے ہیں۔ 
عزیزو! علم اور اہل علم کی افادیت کا اندازہ لوگوں کی دینی و دنیوی ترقی ،اثرات اور کارکردگی سے ہوتا ہے جتنا باعمل عالم اتنا ہی وہ اپنے سماج کیلئے موثر اور محترم ہوگا ایسا عالم سماج کا تیسرا ستون ہے اگر  دولت و قدرت سے لوگوں پر حکومت کی  جاتی ہے تو باعمل عالم دین کے ہاتھ میں لوگوں کا دین و ایمان ہوتا ہے جس سے وہ ان کے دل پر حکومت کرتا ہے۔جس طرح قدرت و دولت کے بغیر سماج کی ترقی ممکن نہیں اس طرح عالم دین کے بغیر سماج کا پنپنا ناممکن ہے۔الحمد للہ یہ بات روز روشن کی واضح ہے کہ ہر دور میں تشیع میں زندہ ضمیر اور بیدار مغز علماء کا وجود رہا جنہوں نے اپنے علم و عمل سے حکومت و حاکم کو قابو میں کیا اور الہی قدرت و عوامی حمایت سے مظلوموں کی حمایت میں لڑتے رہے۔کہا جاتا ہے کہ قدرت ثروت اور تسبیح ایک ساتھ نہیں  ہوسکتیں لیکن ہمارے علماء نے ستمگروں سے شمشیر چھینی ،دولت مند کو نصیحت کی اور حکومت و حاکم اور اہل ثروت کو شریعت کا پابند بنایا۔
علماء کا سماج پر یہ اثر دیکھ کر استکبار چونکا اور اس نے ایک ایسی چال چلی جو کسی حد تک کار گر بھی رہی ہے ۔دین دشمن یا اسلام دشمن طاقتوں نے محسوس کیا کہ اگر مذہب کا مقابلہ کرنا ہے تو مذہب کے ذریعہ ہی کرنا ہوگا  تبھی کامیابی ملے گی  چانچہ اس نے شیطان کی طرح عالم نما افراد کو علماء کی صف میں لاکر بٹھا دیا جس طرح فرعون نے بلعم باعور کو موسی علیہ السلام کے مقابل پیش کیا تھا اسی طرح فرعون وقت نے بلعم باعور ، کعب الاحبار، ابوہریرہ، قاضی شریح اور ابو موسی اشعری جیسے لوگوں کو علماء  حق کے خلاف لاکر کھڑا کردیا۔
آج عالم نما  افراد کی کم علمی ،لا علمی یا انکی کسی کوئی اپنی غرض ہوگی جسکی وجہ سے خرافات  عام ہورہی ہیں اور انہیں بڑھاوا مل رہا ہے یہ  لوگ  ملنگیت، غلو، اور درویشی گری  کو مقدس ناموں سے پیش کر رہے ہیں  ۔ دین کا تقدس ختم کیا جارہا ہے۔شریعت کا مذاق اڑاکر  عمل کی اہمیت کو کمرنگ کیا جارہا ہے۔اب  مسجد رقص کا میدان بن گیا ہے ، جشن کی عظمت پامال ہوگئی ہے، عزاداری کی سادگی ختم کردی گئی ،تقلید و مرجعیت  پر تنقید ہورہی ہے۔
ان فکری انحراف کا لازمی نتیجہ  عوام میں عمل کی کمزوری ہے بے عملی اور بدعملی بلکہ خلاف شریعت اعمال کو انجام دیا جارہا ہے اور تو اور اس کے گناہ ہونے کا احساس بھی ختم ہوگیا  ہے  چنانچہ اسراف، سود خوری، جوا اور شرط لگا کر ریس اب عام سی بات بن کر رہ گئی ہےطلاق اور خلع کی شرحیں بڑھتی جارہی ہیں گھر ٹوٹتے جارہے ہیں۔
علماء حق گوشہ نشین کردیے گئے  ہیں ۔ان میں کچھ ایسے ہیں جو ہر حال میں میدان میں کھڑے ہیں اور مذکورہ برائیوں سے بر سر پیکار ہیں مگر  کچھ پر ایسی غفلت طاری ہے کہ وہ قوم کی اس حالت سے ہی بے خبر ہیں یا عوام کی جانب سے احتمالی نقصان کے پہنچنے کے خوف  سے ان مسایل سے چشم پوشی کرلی اور سکوت کو ترجیح  دے دی ہے ۔اور جو  ان باتوں کی جانب متوجہ ہیں اور آواز  بھی اٹھاتے ہیں  لیکن صرف اپنی مخصوص نشستوں اور محدود افراد حد تک ہوتی ہے جب  اسلام کے فلسفہ پر  بات کرتے ہیں تو وہ گہری گفتگو جو صرف عالم خیال کیلئے مفید ہے ۔اگر زمین پر اتر کر زمینی حقائق کو دیکھا جائے اور اس کے بعد لائحہ عمل طے کیا جائے اور عملی اقدامات کیے جائیں تو ان باتوں کا مقابلہ مشکل نہیں اور کہیں علماء کا  یہ عالم کہ اپنے ملک ، شہر کی گلی کوچہ ، آس پڑوس  کی کوئی خبر گیری نہیں شہر جل رہے ہیں ہے ہماری اپنے ہی ملک میں شناخت چھینی جارہی ہے ملک کے چپے چپے میں مذہب کے نام پر مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے مگر ہم میں سے کوئی ان باتوں پر آواز نہیں اٹھاتا ہاں عالمی استکبار اور عالمی سطح کی بات ہوتی ہے تو پاٹ دار مضبوط آواز میں چیخ چیخ کر دنیا بھر کے مظلوموں کی حمایت میں گھنٹوں بولا جاتا ہے ۔
سچ تو یہ ہے کہ عالم نما افراد کی جہالت اور حقیقی علماء کی غفلت اہم اور مہم عدم تشخیص کسی لائحہ کا نہ ہونا عدم اتحاد اور بعض کی  سستی شہرت اور مقام و مرتبہ کی چاہت اور عیش و عشرت کی عادت نے انہیں کھوکلا کردیا ہے انہی کمزوریوں کو دیکھ کر اسلام دشمن یا  خود غرض سیاستمدار اور دولت کے نشہ میں دھت صاحب ثروت اور مذہبی  تعلیمی اور ثقافتی اداروں  کے سربراہ سبھی ایسے  علماء کو اپنا آلہ کار بناتے  ہیں ۔ وہ کبھی کسی کمیٹی کا  انہیں صدر و نائب صدر یا رکن چن لیتے ہیں  تاکہ اپنے مشروع یا نا مشروع کاموں پر ان چہروں کی وجہ سے عوام کی پوچھ گوج سے بچیں رہیں اس کے بعد ووٹ جائے وقف جائے کی جائیدادیں جائے مساجد گرائی جائیں امامباڑے تباہ ہوں اب ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا یا کسی عمل خیر کے نام سے مومنین سے جمع کیا گیا پیسہ ہڑپ لیا جائے ان تمام کاموں میں علما کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور بعض اوقات عوام میں لوگوں کا اعتبار حاصل کرنے کیلئے  سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی نشستوں میں انہیں عمامہ عبا اور قبا کے ساتھ بٹھا کر زینت مجلس بنادیتے ہیں۔ دشمن کی سازش کہیے یا اپنی نادانی جہاں تک ہوسکے ہمیں گروہ  در گروہ بانٹا جارہا ہے اب ہر ایک کی اپنی ایک طرز فکر اور ہر ایک کا  اپنا طریقہ کار  اور ہر کوئی دوسرے کو رقیب سمجھ رہا ہے کوئی کسی دوسرے کی حوصلہ افزائی یا مدد نہیں کرتا ہر ایک کو دوسرے کا کام بیہودہ لگتا ہے۔ان سب باتوں  نتیجہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہے اور کسی آلہ کار سے اس سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .